ہر ماہ توحید و رسالت سے مزین مشہور عالم کتاب کشف المحجوب سبقاً حضرت حکیم صاحب مدظلہ پڑھاتے ہیں‘ قارئین کی کثیرتعداد اس محفل میں شرکت کرتی ہے۔ تقریباًدو گھنٹے کے اس درس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
(آئندہ حلقہ کشف المحجوب 24 اپریل بروز اتوار کو ہوگا)
شیخ نے فتنوں کا دور اور اس کی علامات بیان کی ہیں۔ شیخ نے کچھ لوگوں کے نام لکھے ہیں کہ انہوں نے دین کو گانے بجانے کا نام دیدیا ہے اور دین کو مرضی کے مطابق ڈھال کے اپنی مرضی کا نام دیدیا ہے جس دین میں سجدہ صرف ایک رب کو ہے اس سجدے کو جگہ جگہ کروا دیا ہے۔ شیخ لکھتے ہیں کہ شریعت کے ترک کا نام طریقت اور اہل زمانہ کی آفت کا نام مجاہدہ یہاں تک کہ اس علم کو جاننے والے یعنی معرفت الٰہی کو سمجھنے والے اس جہان سے بالکل الگ ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگوں کو تو الگ کردیا گیا اور جنہوں نے جھوٹ کو‘ فریب کو اور گانے بجانے کو دین کا نام دیا اور دین کی حقیقتوں کو چھوڑ کر فتنوں کو‘ شریعت کو چھوڑ کر شرک اور بدعت کو اپنی زندگی کا ساتھی بنالیا تھا لوگ ان کی طرف گئے اور جو عارف تھے وہ اپنی عزت بچا کر ایک طرف ہوگئے۔ یہ ہے اصل حقیقت۔
آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ پیرعلی ہجویری نے سنا کہ ایک درویش آئے ہیں اور لوگ ان سے فیض یاب ہورہے ہیں وہ راوی کے دوسرے کنارے پر رہتے ہیں۔ آج سے ہزار سال پہلے راوی بھی راوی تھا اور دریا میں طغیانی زوروں پر تھی۔ اس وقت دریا پار کرنے کیلئے پل وغیرہ تو ہوتی نہیں تھیں اور نہ کوئی ایسا جدید نظام تھا کہ آسانی سے دریا پار کیا جاسکے۔ شیخ کو تجسس ہوا اور ملاقات کا شوق پیدا ہوا۔ شیخ بڑی مشقت سے‘ بڑی تکالیف سہتے ہوئے وہاں تشریف لے گئے کہ بڑے اللہ والے ہیں‘ بڑی شہرت سنی ہے جوآئے وہی بتائے تو چلو زیارت کرآئیں۔ شیخ بھی تشریف لے گئے جب وہاں پہنچے تو لوگ بیٹھے تھے اور ایک مجمع لگا تھا۔ شیخ بھی کونے میں بیٹھ گئے‘ بیٹھے رہے‘ لوگ آہستہ آہستہ سرکتے رہے اپنے مسائل بتاتے رہے اور حل لے کر جاتے رہے۔ شیخ بھی آہستہ آہستہ آگے ہوتے رہے۔شیخ کیساتھ دو درویش بھی تھے۔ پھر شیخ کی باری آگئی۔ وہ درویش پوچھنے لگے جی فرمائیے! کیسے آنا ہوا؟
شیخ فرمانے لگے یہ دل کا برتن خالی ہے اس برتن کیلئے آیا ہوں کہ اس دل میں اللہ کی معرفت کا کوئی موتی ڈال دیں۔ درویش فرمانے لگے ٹھیک ہے اور کوئی کام؟ فرمانے لگے نہیں بس اسی کیلئے آیا ہوں۔ پوچھا کہاں سے آئے؟ بتایا کہ میں لاہور سے آیا ہوں۔ پوچھا کیا نام ہے؟ بتایا علی بن عثمان۔ پوچھا شیخ کون ہیں؟ بتایا شیخ ابوالفضل رحمة اللہ علیہ ایک اور بات بتاتا چلوں۔ حضرت علی ہجویری رحمة اللہ علیہ اپنے زمانے میں مشہور نہیں تھے اور یہ بھی نکتہ بتاتا جائوں تاریخ نے ہر اس شخص کو مشہور کیا ہے جو اپنے دور میں زیادہ مشہور نہیں تھا جبکہ سلاطین اس وقت مشہور ہوتے تھے لیکن تاریخ نے ان کو بھلا دیا جو اللہ کا نام لینے والا ہے وہ ضروری نہیں کہ شہرت پائے لیکن اللہ بعداز وصال منوا کردیتے ہیں کہ میرا نام زندہ رہے گا اور نام لینے والا بھی زندہ رہے گا۔ اصل اللہ کی بارگاہ میں قبولیت ہے۔ وہ بزرگ شیخ علی بن عثمان ہجویری رحمة اللہ علیہ سے فرمانے لگے کہ بہت عرصے بعد کسی انسان سے ملاقات ہوئی ہے دنیا کے کتے میرے پاس ادنیا مانگنے آتے تھے میں ان کو دنیا کی ہڈی ڈال دیتا تھا۔ تم پہلے شخص ہو جودل کی دنیا آباد کروانے آئے ہو۔ میرے پاس آتے رہا کرو تمہارا روحانیت کا حصہ میرے پاس پڑا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں